سپریم کورٹ آف پاکستان کا اہم فیصلہ: PLD 2025 SC 612
جب مالکِ مکان ذاتی ضرورت کے جھوٹے دعوے پر کرایہ دار کو بے دخل کرائے تو عدالت کرایہ دار کو قبضہ واپس دلانے کا حکم دے سکتی ہے
محترم قارئین،
پاکستان کی کرایہ داری قوانین کا بنیادی مقصد مالکِ مکان اور کرایہ دار کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔ ایک طرف مالکِ مکان کو اپنی جائیداد کے استعمال کا حق حاصل ہے، تو دوسری طرف کرایہ دار کو غیر منصفانہ بے دخلی سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حال ہی میں PLD 2025 SC 612 میں ایک انتہائی اہم فیصلہ دیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
"اگر مالکِ مکان ذاتی حقیقی (bona fide) ضرورت کے بنیاد پر کرایہ دار کو بے دخل کرائے، اور بعد میں یہ ضرورت جھوٹی یا بدنیتی پر مبنی ثابت ہو جائے، تو عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کرایہ دار کو جائیداد کا قبضہ دوبارہ دلائے۔"
یہ فیصلہ کرایہ داری قوانین کے تحت کرایہ داروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگِ میل ہے اور مالکِ مکانوں کو بدنیتی سے غلط بیانی کرنے سے روکتا ہے۔
فیصلے کا پس منظر اور قانونی نکتہ
پاکستان میں شہری کرایہ داری کے معاملات مختلف صوبائی قوانین جیسے پنجاب اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈیننس 1959، سندھ رینٹڈ پریمیسز آرڈیننس 1979، یا اسلام آباد رینٹ رسٹرکشن آرڈیننس 2001 کے تحت چلتے ہیں۔ ان قوانین میں مالکِ مکان کو کرایہ دار کی بے دخلی کے لیے مخصوص بنیادیں دی گئی ہیں، جن میں سے ایک اہم بنیاد ذاتی حقیقی ضرورت (personal bona fide requirement) ہے۔
مالکِ مکان عدالت میں دعویٰ کرتا ہے کہ اسے جائیداد اپنے یا اپنے خاندان کے ذاتی استعمال کے لیے درکار ہے۔ اگر عدالت اس دعوے کو درست مان کر بے دخلی کا حکم دے دے، تو کرایہ دار کو جائیداد خالی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اگر بعد میں ثابت ہو جائے کہ یہ ضرورت جھوٹی تھی – مثلاً مالک نے جائیداد کو دوبارہ کرائے پر دے دیا، یا اسے اپنے دعوے کے مطابق استعمال نہیں کیا – تو کیا کرایہ دار بے بس ہو جائے گا؟
سپریم کورٹ نے PLD 2025 SC 612 میں واضح کیا کہ نہیں۔ عدالت کو مکمل اختیار ہے کہ وہ کرایہ دار کے حق میں قبضہ کی بحالی (restoration of possession) کا حکم دے۔ یہ حکم انصاف کے بنیادی اصولوں، ایکوئٹی (equity)، اور کرایہ داری قوانین کے حفاظتی مقاصد پر مبنی ہے۔
فیصلے کی اہمیت اور قانونی بنیاد
- بدنیتی کی روک تھام: یہ فیصلہ مالکِ مکانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ذاتی ضرورت کا دعویٰ ہلکے سے نہ کیا جائے۔ اگر دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا تو نہ صرف بے دخلی کا حکم کالعدم ہو سکتا ہے، بلکہ کرایہ دار کو قبضہ واپس مل سکتا ہے۔
- کرایہ دار کے حقوق کا تحفظ: کرایہ داری قوانین بنیادی طور پر کرایہ داروں کو تحفظ دینے کے لیے بنائے گئے ہیں، کیونکہ مالکِ مکان عام طور پر مضبوط پوزیشن میں ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اس توازن کو برقرار رکھتا ہے۔
- عدالت کا اختیار: سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ رینٹ کنٹرولر یا عدالت کو، جب بدنیتی ثابت ہو جائے، قبضہ کی بحالی کا حکم دینے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیار سیکشن 17(6) جیسے پروویژنز سے بھی ہم آہنگ ہے، جو کرایہ دار کو دوبارہ قبضہ کی درخواست کا حق دیتے ہیں اگر مالک دعوے کے مطابق جائیداد استعمال نہ کرے۔
- پچھلی عدالتی مثالیں: یہ فیصلہ پچھلی کیس لاء جیسے کہ مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے مطابقت رکھتا ہے، جہاں بدنیتی پر بے دخلی کے احکامات کو کالعدم قرار دیا گیا اور کرایہ داروں کو ریلیف دیا گیا۔
وکلاء اور فریقین کے لیے عملی مشورے
- کرایہ داروں کے لیے: اگر آپ کو ذاتی ضرورت کے بنیاد پر بے دخل کیا گیا ہے اور آپ کو شک ہے کہ مالک کا دعویٰ جھوٹا ہے، تو فوری طور پر عدالت میں درخواست دائر کریں۔ ثبوت جمع کریں کہ مالک نے جائیداد کو دعوے کے مطابق استعمال نہیں کیا (مثلاً دوبارہ کرائے پر دے دی)۔
- مالکِ مکانوں کے لیے: ذاتی ضرورت کا دعویٰ کرتے وقت مکمل ایمانداری اختیار کریں۔ جھوٹا دعویٰ نہ صرف کیس ہارنے کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ عدالت کی طرف سے جرمانہ یا دیگر نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
- عدالتوں کے لیے: یہ فیصلہ رینٹ کنٹرولرز اور اپیلٹ عدالتوں کو ہدایت دیتا ہے کہ ذاتی ضرورت کے دعووں کی سخت جانچ پڑتال کریں اور بدنیتی کے موارد میں کرایہ دار کو فوری ریلیف دیں۔
نتیجہ
PLD 2025 SC 612 سپریم کورٹ کا ایک انقلابی فیصلہ ہے جو کرایہ داری قوانین کو مزید منصفانہ بناتا ہے۔ یہ کرایہ داروں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ قانون ان کے ساتھ کھڑا ہے اگر مالک بدنیتی سے کام لے۔ ایک وکیل کی حیثیت سے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ ہزاروں کرایہ داروں کے لیے امید کی کرن ہے اور معاشرے میں انصاف کے نفاذ کو مضبوط کرتا ہے۔
اگر آپ کو کرایہ داری کے کسی معاملے میں قانونی مشورے کی ضرورت ہے، تو مستند وکیل سے رابطہ کریں۔ قانون کا احترام ہی معاشرتی توازن کی ضمانت ہے۔
بشکریہ، ایک وکیلِ پاکستان
