پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز کی مکمل فہرست 2025 – جنرل فیض حمید سزا سمیت

پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز کی مکمل فہرست 2025 – جنرل فیض حمید سزا سمیت

High-Profile Court Martials in Pakistan 2025: Complete List Including Lt Gen (R) Faiz Hameed’s 14-Year Sentence

پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز: فوجی احتساب کی تاریخی جھلک


  • فیض حمید سزا: پاکستان کے 10 بڑے فوجی کورٹ مارشلز کی حقیقت 2025
  • جنرل فیض حمید 14 سال قید – پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت سب سے بڑے کورٹ مارشلز
  • پاکستان فوج میں کتنے جنرلز کو ہوئی سزا؟ مکمل تاریخ اور تفصیل 2025
  • High-Profile Court Martials in Pakistan 2025: Complete List Including Lt Gen (R) Faiz Hameed’s 14-Year Sentence

  • پوسٹ کیا گیا بلاگ: basicpakistanilaws.blogspot.com تاریخ: 11 دسمبر 2025

    پاکستان کی فوجی تاریخ میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے ایک حساس اور اہم باب رہا ہے۔ حال ہی میں سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائے جانے کے بعد، عوام کی توجہ فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف ہونے والے کورٹ مارشلز کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف فوجی قوانین کی سختی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 جیسے قوانین کی عملداری اور عدالتی احتساب کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ آج کے اس مضمون میں، ہم پاکستان میں اب تک ہونے والے ہائی پروفائل کورٹ مارشلز کا جائزہ لیں گے، ان کی قانونی بنیادوں پر روشنی ڈالیں گے، اور ان سے ملنے والے سبق پر غور کریں گے۔

    فوجی احتساب کی قانونی بنیاد: پاکستان آرمی ایکٹ 1952

    پاکستان آرمی ایکٹ 1952 فوج کے اندر انضباطی اور جرائم کی کارروائیوں کا بنیادی قانون ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 20 کے تحت کورٹ مارشل مختلف قسم کے ہو سکتے ہیں، جیسے جنرل کورٹ مارشل، ڈسٹرکٹ کورٹ مارشل، یا سمری جنرل کورٹ مارشل۔ یہ قوانین فوجی افسران کو سول عدالتوں سے الگ رکھتے ہیں، تاکہ فوری اور مؤثر احتساب ممکن ہو۔ کورٹ مارشل کی کارروائی میں الزامات کی تحقیقات، فردِ جرم عائد کرنا، گواہوں کی سماعت، اور سزا کا اعلان شامل ہوتا ہے۔ سزا میں قید، جرمانہ، برطرفی، یا سروس سے اخراج ہو سکتا ہے۔

    یہ قوانین نہ صرف فوج کی اندرونی صفائی کو یقینی بناتے ہیں بلکہ قومی سلامتی اور کرپشن کی روک تھام میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، کئی کیسز میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مداخلت کی ہے، جیسے اصغر خان کیس میں، جہاں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سیاسی مداخلت پر احکامات جاری کیے گئے۔ اب آئیے، تاریخی کیسز کا جائزہ لیتے ہیں۔

    پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز: ایک تاریخی جائزہ

    پاکستان میں فوجی احتساب کا سلسلہ 1950 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے، لیکن ہائی پروفائل کیسز زیادہ تر 1990 کی دہائی سے سامنے آئے۔ یہاں چند اہم مثالیں ہیں:

    1. این ایل سی اسکینڈل (2009-2015): نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کے ذریعے فوج کی زمینوں کی فروخت سے 1.8 ارب روپے کا مبینہ نقصان ہوا۔ 2009 میں انکوائری شروع ہوئی، اور 2015 تک تحقیقات مکمل ہوئیں۔ اس کیس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) راشد کیانی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی بجائے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی ہدایت دی۔ نتیجتاً، کئی افسران پر الزامات عائد ہوئے، جن میں بے ضابطگیاں، ناقص فیصلے، اور قواعد کی خلاف ورزی شامل تھیں۔ قانونی سبق: یہ کیس آرمی ایکٹ کی دفعہ 39 (کرپشن) اور دفعہ 58 (برطرفی) کی مثال ہے، جو فوجی وسائل کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔
    2. لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کا کیس (2019): مئی 2019 میں، سابق آئی ایس آئی افسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو حساس معلومات لیک کرنے کے الزام میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزا بعد میں کم کر دی گئی، جس کے نتیجے میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ قانونی سبق: آرمی ایکٹ کی دفعہ 5 (غداری) کے تحت، انٹیلی جنس معلومات کی حفاظت لازمی ہے۔ یہ کیس فوجی رازداری قوانین کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
    3. میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کا کیس (1995): 1995 میں، میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور دیگر افسران پر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا الزام لگا۔ عباسی کو 7 سال قید کی سزا ہوئی۔ قانونی سبق: آرمی ایکٹ کی دفعہ 31 (بغاوت) اس طرح کی کارروائیوں کو روکتی ہے، جو فوج کی وفاداری کو مضبوط بناتی ہے۔
    4. بریگیڈیئر (ر) علی خان کا کیس (2011): 2011 میں بریگیڈیئر (ر) علی خان کو حزب التحریر سے مبینہ تعلق اور بغاوت کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ انہیں 5 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ قانونی سبق: یہ کیس آرمی ایکٹ کی دفعہ 32 (انتہا پسندی) کی مثال ہے، جو فوج میں غیر ملکی اثرات کو روکتا ہے۔
    5. دیگر اہم کیسز:
      • 2016 میں کرپشن کے الزام میں دو حاضر سروس جنرلز کو برطرف کیا گیا۔
      • بریگیڈیئر مستنصر باللہ کو 14 سال قید کی سزا ملی۔
      • دو سابق بریگیڈیئرز کو 4-4 سال قید ہوئی۔
      • سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی پر اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے کارروائی کا حکم دیا، مگر مؤثر پیش رفت نہ ہوئی۔ اسی طرح، جنرل درانی کی کتاب Spy Chronicles پر بھی تحقیقات کا حکم دیا گیا، لیکن کوئی حتمی نتیجہ نکلا نہ۔
      • سابق آرمی چیف جنرل (ر) ضیا الدین بٹ پر بھی کرپشن کی محکمانہ کارروائی چلی۔

    ان کیسز میں کل کم از کم 10 ہائی پروفائل کورٹ مارشلز ہو چکے ہیں، جن میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران شامل ہیں۔

    حالیہ کیس: لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا

    حال ہی میں، سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر کرپشن اور دیگر الزامات عائد کیے گئے۔ انہیں تقریباً 9 ماہ حراست کے بعد باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی۔ چھاپوں میں 400 تولہ سونا، 4 کروڑ روپے نقد، زیورات، اور دیگر اثاثے برآمد ہوئے، جو ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی اور نجی ٹی وی چینل کی سرپرستی سے منسلک تھے۔ آئی ایس آئی اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی سے یہ کیس سامنے آیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ "اس نوعیت کے سنگین الزامات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے"۔ قانونی سبق: یہ کیس آرمی ایکٹ کی دفعہ 39 (کرپشن) اور سول قوانین جیسے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ایکٹ کے امتزاج کو ظاہر کرتا ہے، جہاں سپریم کورٹ کی نگرانی میں فوجی احتساب ہوتا ہے۔

    چیلنجز اور سبق: عدالتی احتساب کی راہ میں رکاوٹیں

    اگرچہ یہ کورٹ مارشلز فوج میں احتساب کی مثالیں ہیں، مگر کئی کیسز جیسے اصغر خان اور Spy Chronicles میں سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے ادارہ جاتی چیلنجز سامنے آتے ہیں۔ فوجی قوانین کی سختی کے باوجود، سیاسی مداخلت اور رازداری کی پالیسیاں پیش رفت کو متاثر کرتی ہیں۔ سبق:

    • فوجی افسران کے لیے آرمی ایکٹ ایک مضبوط ڈھانچہ فراہم کرتا ہے، جو قومی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔
    • سپریم کورٹ کی مداخلت سے شفافیت بڑھتی ہے، جیسے آرٹیکل 184(3) کے تحت جوڈیشل ریویو۔
    • عوام کو یہ جاننا چاہیے کہ احتساب سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ فوج کا اعلیٰ افسر ہو یا سول ملازم۔

    نتیجہ

    پاکستان میں ہائی پروفائل کورٹ مارشلز فوجی قوانین کی طاقت اور عدالتی نگرانی کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فیض حمید کیس جیسے حالیہ واقعات سے یہ واضح ہے کہ احتساب کا عمل جاری رہے گا، جو ملک کی گورننس کو مضبوط بنائے گا۔ اگر آپ کو فوجی قوانین یا کسی مخصوص کیس پر مزید جاننا ہے، تو تبصرے میں پوچھیں۔ پاکستان کے قوانین کی بنیادی سمجھ بوجھ ہی ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے!

    حوالہ: یہ مضمون Public News کی رپورٹ پر مبنی ہے۔ مصنف: بلاگ ایڈمن (Basic Pakistani Laws)

    نوٹ: یہ معلومات عوامی ذرائع پر مبنی ہیں اور قانونی مشورہ نہیں۔ قانونی معاملات میں وکیل سے رجوع کریں۔

    Post a Comment

    Previous Post Next Post

    Contact Form