Jurisdictions of High Court Under Constitution of Pakistan 1973
آئینِ پاکستان کے تحت ہائی کورٹ (عدالتِ عالیہ ) کا ابتدائی اختیارِ سماعت
ناظرین جیسا کہ میں نے اپنی پچھلی ویڈیو میں کہاتھا کہ میں قانونی دستاویز نویسی کو مزید بیان کرنے سے پہلے ہائی کورٹ کا تعارف کروانا بہتر سمجھتا ہوں تاکہ آپ کو ہائی کورٹ کےاختیارات کا بھی پتہ چل جائے۔
ناظرین آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 192 کے تحت پاکستان کے ہر صوبے میں ایک ایک عدالتِ عالیہ/ہائی کورٹ قائم کی گئی۔ یہ صوبہ کی سطح پر ملک کی سب سے بالا عدالت ہے بمطابق آرٹیکل 175 آئینِ پاکستان۔ آرٹیکل 192 کی ذیلی شق 1 کی رو سے عدالتِ عالیہ چیف جسٹس کے علاوہ دیگر ججوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی تعداد قانون کے ذریعے متعین کی جاتی ہے۔ ہر صوبے کی عدالتِ عالیہ
کا صدر دفتر اس صوبے کے صدر مقام میں واقع ہونے کی وجہ سے ان کے صدر دفاتر لاہور، پشاور، کراچی، اسلام آباد اور کوئٹہ میں جب کہ ان کے بنچ دیگر شہروں میں بھی قائم ہیں۔ عدالتِ عالیہ لاہور کے بنچ بہاولپور، ملتان اور راولپنڈی میں، عدالتِ عالیہ سندھ کا ایک بنچ سکھر،حیدرآباداور لاڑکانہ میں، عدالتِ عالیہ پشاور کے بنچ ایبٹ آباد،منگورہ ،بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اور عدالتِ عالیہ بلوچستان کا ایک بنچ سبی میں اور دوسرا بنچ تربت میں قائم ہے۔ہر بنچ کی علاقائی حدود متعین ہیں لہٰذہ کسی بھی بنچ کی حدود میں رہائش پذیر شخص عدالتِ عالیہ کے حدود میں آنے والا کوئی بھی کیس (مقدمہ) یا اپیل اسی بنچ میں دائر کرسکتا ہے۔
ہائی کورٹ (عدالتِ عالیہ ) کےابتدائی اختیاراتِ سماعت آئینِ پاکستان کے تحت
ناظرین آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت اگر عدالتِ عالیہ مطمئن ہو کہ قانون میں کسی اور مناسب چارہ جوئی کا متبادل انتظام موجود نہیں ہے تو وہ درج ذیل احکامات جاری کرسکتی ہے۔
نمبر1۔ کسی متاثرہ شخص کی درخواست پر اپنے علاقائی اختیارات سماعت کے اندر اندر وفاق، کسی صوبے یا کسی مجاز اتھارٹی کے امور کے سلسلے میں فرائض انجام دینے والے کسی شخص کو ہدائت دے سکتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرنے سے اجتناب کرےجس کے کرنے کی اسے قانوناً اجازت
نہیں ہے یا کوئی ایسا کام سر انجام دے جو قانون کی رو سے اس پر واجب ہے۔
نمبر2۔ناظرین عدالتِ عالیہ کسی متاثرہ شخص کی درخواست پر یہ قرار دے سکتی ہے کہ اس کے علاقائی اختیاراتِ سماعت کے اندر وفاق، کسی صوبے یا مجاز اتھارٹی کی طرف سے انجام دیا ہوا کوئی فعل یا کاروائی قانونی اختیار کے بغیر کی گئی ہے اور وہ کوئی قانونی اثر نہیں رکھتی۔
نمبر3۔ ناظرین عدالتِ عالیہ ( ہائی کورٹ) کسی بھی متاثرہ شخص یا کسی دیگر شخص کی درخواست پر یہ حکم دے سکتی ہے کہ اس کے علاقائی اختیارات میں زیرِ حراست کسی شخص کو اس کے سامنے پیش کیا جائے
تاکہ عدالت ذاتی طور پر اطمینان کرسکے کہ اسے قانونی اختیار کے بغیر یاکسی غیر قانونی طریقے سے زیرِ حراست تو نہیں رکھا جا رہا ہے۔
نمبر4۔ ناظرین ہائی کورٹ / عدالتِ عالیہ کسی متاثرہ شخص یا کسی دیگر شخص کی درخواست پر اپنے علاقائی اختیاراتِ سماعت میں کسی عہدے پر فائز شخص کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ وہ کس قانونی اختیار کے تحت اس عہدہ پر فائز ہونے کا دعویدار ہے۔
نمبر5۔کسی بھی متاثرہ شخص یاکسی اور شخص کی درخواست پر بذریعہ حکم اپنےعلاقائی اختیارِ سماعت کے اندر کسی علاقے میں یا اس علاقے کے بارے میں اختیار کو استعمال کرنے والے کسی شخص یا مجاز اتھارٹی بشمول
کسی حکومت کو ایسی ہدایات دے سکتی ہے جو آئین کے حصہ دوئم کے باب اول میں بیان کردہ بنیادی حقوق مثلاً فرد کی سلامتی، گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ، غلامی اور بیگار وغیرہ کی ممانعت، تقریر وغیرہ کی آزادی، مذہب کی آزادی اور حقوق جائیداد کا تحفط وغیرہ میں سے کسی حق کے تحفظ کے لئے موزوں ہوں۔