گواہان پر جرح کرنے سے پہلے ہمیں جرح کا بنیادی مقصد/مقاصد پتا ہونا چاہیے۔ جو کہ درج ذیل ہو سکتے ہیں
1: مدعی/مثتغیث کے کیس کو اس میں مٹیریل کنٹراڈکشنز لاتے ہوے غلط ثابت کرنا
۔۔۔۔ مٹیریل کنٹراڈکشن
اس کی تعریف کہیں نہیں کی گئی(کم از کم میری نظر سے نہیں گزری) لیکن عام طور پر وہ کنٹراڈکشن مٹیریل کنٹراڈکشن کہلاتی ہے جو وقوعہ/ ملزم کے خلاف پائے جانے والے کسی اہم ثبوت میں پائی جائے۔
مثال: "ایک کیس میں پولیس گشت پر تھی، انہیں اطلاع ملی کہ مرکز میں ایک بندہ قتل ہو گیا ہے"
اب پولیس تھانے سے گشت پر کس وقت نکلی؟ کون کون ساتھ تھا؟ کس گاڑی میں تھے؟
قتل کس وقت ہوا؟ (عینی شاہدین سے پوچھا جانے والے سوال)
پہلے تین سوالوں میں پائی جانے والی کنٹراڈکشن کرابریٹری تو ہے لیکن وہ مٹیریل نہیں۔۔۔۔ کیوں کہ وہ مین مدعا کے متعلق نہیں۔ انہیں ہیومین ایرر کہہ کر درگزر کیا جا سکتا ہے!!
جبکہ چوتھے سوال میں کنٹراڈکشن آنے پر وقوعہ ہی مشکوک ہو جاتا ہے اور بندہ بری ہو سکتا ہے۔
اس لیے کیس میں مٹیریل کنٹراڈکشنز لانے کی تیاری کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2: اگر ہو سکے تو انہی گواہان سے اپنی پلی ایڈمٹ کروانا
۔۔۔۔ ہمارے ہاں اکثر بہت سے کیسز سچ کی بجائے جھوٹ پر "بنائے" جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ان کیسز میں مدعی/مثتغیث آپ کے حق میں پائے جانے والے کچھ اہم پوائنٹس بیان نہیں کرتا۔۔۔۔ لیکن وہ اتنے قوی ہوتے ہیں کہ با آسانی ایڈمٹ کروائے جا سکتے ہیں۔
مثال: ایک کیس میں ملزم اغواء ہوا۔ ہائیکورٹ میں رِٹ فائل کرنے پر اس پر جھوٹا کیس ڈال کر گرفتار کر لیا گیا۔ تفتیشی نے ہائیکورٹ پیش ہو کر بتا دیا کہ فلاں کیس میں یہ گرفتار ہے۔
اب تفتیشی کا یہ فرض تھا(بمطابق صغراں بی بی کیس کہ وہ اغواء کے ایلیگیشن پر بھی تفتیش کرے اور فائنل رپورٹ میں اس
... pld 2018 SC 595)کو سچ یا جھوٹ بتائے۔ جبکہ اس نے اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہ لکھا۔
چونکہ رِٹ وغیرہ موجود تھی۔ جس میں تفتیشی کی حاضری بھی تھی۔ لہذا با آسانی وہ یہ مان گیا کہ اغواء کی پلی کو چھپایا ہے۔ اس سے تفتیشی کی میلافائڈی ظاہر ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3: کچھ کیسز(مثلا نابغان کی کسٹڈی یا جن میں تزکیۃ الشہود شرط ہے) میں گواہ کا کریکٹر امپیچ کرنا
۔۔۔۔انتہائی ضروری نہ ہو تو یہ مت کریں۔ اور اگر کریں تو سڑرونگ شہادت کی بنیاد پر ہی کریں۔ صرف الزامات نہ لگائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مقصد کے لیے درج ذیل کام کریں
1: ۔مکمل کیس (فائل) آپ کی فنگر ٹپس پر ہو
---- کیس کی مکمل فائل کاپی کروائیں، بشمول وارنٹ، پرچہ سزا وغیرہ۔۔۔۔ کوئی ایک بھی پیج مِس نہ ہو۔
۔۔۔۔ پیج نمبرنگ کریں
پھر /پوسٹ مارٹم رپورٹ، مرگ رپورٹ چالان، ریکوری میموز اور پھر باقی فائل کا ایک ایک پیج پرھیں۔
۔۔۔۔ اگر آپ کو تجربہ ہے تو دو سے تین مرتبہ پڑھ کر کیس سمجھ آ جائے گا۔ سمجھ آنے سے مراد یہ ہے کہ کیس کے ہر پیج کا لنک آپ کو پتہ ہو کہ یہ کیوں لگایا گیا ہے۔۔جب تک یہ پتا نہ چلے بار بار پڑھیں
۔۔۔ اس کے بعد اپنے کلائنٹ کی سٹوری کو سمجھیں۔ جائے وقوعہ کا جا کر مشاہدہ کریں۔ کیس جس بارے میں ہو اسے سمجھیں۔
مثلاً اگر چرس کے بارے میں ہے تو چرس کی اقسام اور اس حوالے سے اہم ججمنٹس پڑھیں۔
اگر فائر آرم انجری ہے تو فائر آرم، انجری ٹائپس، بلیکنگ، برنگ، اِنٹری وونڈ اور ایگزٹ وونڈ وغیرہ کو سمجھیں
۔۔۔۔ اب دوبارہ فائل کو پڑھیں ۔۔کورٹ کی اجازت سے پولیس فائل کو پڑھیں۔۔۔ اگر آپ کا تجربہ ہے تو دو، چار مرتبہ پڑھ کر ہر حصہ میں پائی جانے والی(یا جو آپ نے پیدا کرنی ہے) کمی/لیکونا/کنٹراڈکشن آپ کو نظر آنے لگے گی۔ اسے ہائی لائٹ کرتے جائیں۔ آخر میں کام آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2: گواہان کی تقسیم(سیٹ بنانا)
۔۔۔۔ اس کام کے لیے گواہان کا ایک ٹیبل بنا لیں۔ ہر گواہ کے سامنے اس کی ممکنہ گواہی کا لکھ لیں
۔۔۔۔ کسی ایک پوائنٹ یا ثبوت کے متعلق گواہان کو سیٹ کے گواہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً وقوعہ کے عینی شاہدین، گرفتاری کے گواہ، ریکوری کے گواہ وغیرہ۔
اکثر ان کی جرح ایک ہی دن کی جاتی ہے۔
فوجداری کیس میں پراسیکیوشن نے خود گواہان کو سیٹ میں تقسیم کیا ہوتا ہے۔ لیکن آپ خود سے بھی ضرور چیک کریں۔
مثال: ایک منشیات کے کیس میں ایف آئی آرکے مطابق کانسٹیبل زید بوقت مبینہ گرفتاری ملزم موجود تھا۔ لیکن اسے اضافی سمجھتے ہوے وقوعہ کا گواہ نہ بنایا گیا۔ بعد ازاں مبینہ طور پر ملزم کی نشاندہی پر مزید منشیات کی ریکور کی گئی۔ زید اس ریکوری کا گواہ ہے۔
اب پراسیکیوشن زید کو صرف دوسری ریکوری تک گواہ بنائے گی۔ اس کی تیاری بھی دوسری ریکوری تک ہو گی۔ لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ زید پہلے وقوعہ کا بھی گواہ ہے اور اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
3: کیس(یا سٹوری) کی مختلف حصوں میں تقسیم
۔۔۔۔ ہر کیس میں بہت سے سٹَیپس اور ثبوت ہوتے ہیں۔ اپنے خلاف پائے جانے والے ہر ثبوت کو الگ سے تقسیم کریں۔ کیوں کہ ممکنہ طور پر آپ نے ہر ثبوت میں کنٹراڈکشن پیدا کرنی ہے۔ ہر پوائنٹ یا ثبوت کے متعلق الگ تیاری کریں۔
مثال:
ایک نامعلوم ملزم قتل کیس میں ملزم گرفتار ہوے، ان کی شناخت پریڈ ہوئی، پستول/ آلہ قتل برآمد ہوا
اس کی تقسیم درج ذیل پوائنٹس میں ہو سکتی ہے:
۔۔ وقوعہ قتل
۔۔ عینی شاہد
۔۔ قتل کی خبر
۔۔ جائے وقوعہ، نقشہ وغیرہ
۔۔ اگر کچھ خول وغیرہ ریکور ہوے
۔۔ رپورٹ FIR
۔۔ مرگ رپورٹ
۔۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ
۔۔ ریکوری میموز
۔۔ گرفتاری ملزم
۔۔ شناخت پریڈ
۔۔ ریکوری پسٹل
۔۔ رپورٹ فرانزک آلہ قتل
۔۔ 161 کے بیانات
کیس کو تقسیم کر کے ہر پوائنٹ پر الگ سے تیاری کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔
4: کون سے سوالات کرنے ہیں
یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔ اس میں خاص احتیاط سے چلیں۔ وہ سوالات جو کرنے ہیں انہیں آپ درج ذیل میں تقسیم کر سکتے ہیں
4.1: وہ سوال جس کا جواب آپ جانتے ہیں(اور ثابت کر سکتے ہیں) اور اس جواب سے حاصل ہونے والے مقصد کو جانتے ہیں.
اگر آپ نے فائل اچھی طرح سمجھی ہے، پراسیکیوشن اور اپنے کلائنٹ کا موقف اچھی طرح جانتے ہیں تو ہر کیس میں کم از کم 90% سوالات وہ ہوتے ہیں جن کے جوابات آپ جانتے ہیں۔
مثال: میں نے ایک کیس میں مجسٹریٹ صاحب کو شناخت پریڈ پر سوال پوچھا کہ "کیا ملزمان(دو کس) کی شناخت پریڈ جوائنٹلی(یعنی ایک ہی مرتبہ دو لائنز بنا کر) کروائی گئی یا الگ الگ؟"
اس کا جواب جوائنٹلی تھا جو کہ مجھے میرے کلائنٹ سے پتا تھا اور ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ بھی اس طرف اشارہ کر رہا تھا۔
جبکہ اس جواب کو حاصل کرنے کا مقصد شناخت پریڈ کی حیثیت ختم کرنا تھا۔ کیونکہ جوائنٹ شناخت پریڈ کی کچھ حیثیت نہیں
PLD 2019 SC 488)
(شناخت پریڈ پر ڈیٹیل ججمنٹ کے لیے کنور انور علی کیس دیکھیں
10٪ وہ سوالات ہوتے ہیں جن کا جواب تو آپ شاید نہیں جانتے لیکن ان سوالات کو بذریعہ ان سوالوں کے کور کریں جو آپ جانتے ہیں۔
مثال: آپ نہیں جانتے کہ
پولیس گشت کے لیے تھانے سے کب نکلی؟
لیکن آپ یہ جانتے ہیں کہ کورٹ فائل اور پولیس فائل میں روزنامچہ، جس میں گشت پر نکلنے کا اندراج ہو، کی کاپی نہیں لگی۔
لہذا سوال روزنامچہ کا پوچھیں وقت کا نہیں
یاد رہے کہ جس سوال کا ممکنہ جواب آپ نہیں جانتے وہ جوا ہوتا ہے۔ اس سے پرہیز ہی بہتر ہے۔