فیڈرل شریعت کورٹ میں دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کا قانون کالعدم قرار دینے کی درخواست
شہزادہ عدنان نامی ایک شخص نے مدثر ایڈووکیٹ کے ذریعے فیڈرل شریعت کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لینے کا قانون کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں دلائل
درخواست میں مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے گئے ہیں:
- یہ قانون آئین پاکستان کے خلاف ہے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ آئین کا آرٹیکل 2A کہتا ہے کہ تمام قوانین قرآن اور سنت کے مطابق بنائے جائیں گے۔
- یہ قانون شرع کے خلاف ہے کیونکہ شریعت میں شوہر کو بغیر کسی شرط کے دوسری شادی کرنے کا حق ہے۔
- یہ قانون خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ انہیں دوسری شادی سے روکتا ہے۔
- یہ قانون معاشرے کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ یہ ایک طرف تو خواتین کو بے سہارا کر دیتا ہے اور دوسری طرف مردوں کو ظلم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
درخواست گزار کے مطالبات
درخواست گزار نے عدالت سے مندرجہ ذیل مطالبات کیے ہیں:
- دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لینے کا قانون کالعدم قرار دیا جائے۔
- عدالت اس قانون کو خلاف شرع قرار دے۔
- عدالت اس قانون کو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دے۔
قانونی حیثیت
یہ درخواست ابھی زیرِ سماعت ہے اور فیڈرل شریعت کورٹ نے اس پر فیصلہ نہیں دیا ہے۔ تاہم، یہ ایک اہم قانونی چیلنج ہے جو پاکستان میں دوسری شادی کے قوانین کو تبدیل کر سکتا ہے۔
اس کیس کا پس منظر
پاکستان میں، ایک مرد کو بغیر کسی شرط کے چار شادیاں کرنے کا حق ہے۔ تاہم، اگر وہ اپنی پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے تو اسے مسلم فیملی لاز آرڈیننس، 1961 کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت، ایک شخص کو پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے پر ایک سال تک قید یا جرمانہ، یا دونوں کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
** حالیہ فیصلے**
گزشتہ کچھ عرصے میں، کچھ عدالتوں نے پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کرنے والے مردوں کو سزا سنائی ہے۔ مثال کے طور پر، لاہور کی ایک فیملی کورٹ نے حال ہی میں ایک شخص کو اس کی پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے پر 7 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔ اس سے قبل، پشاور میں بھی ایک شخص کو اسی جرم میں قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
یہ کیس خواتین کے حقوق کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عدالتیں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔