The important Judgment of the Supreme Court regarding the promotion of organizational justice and police officers.

The important Judgment of the Supreme Court regarding the promotion of organizational justice and police officers.

آرگنائزیشنل جسٹس اور پولیس افسران کی پروموشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ 

The important Judgment of the Supreme Court regarding the promotion of organizational justice and police officers.

فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ 
حماد نبی ؛ جو کہ اکتوبر انیس سو ستانوے میں بطور سب انسپکٹر پنجاب پولیس میں بھرتی ہوئے اور بالآخر چاروں کورسز یعنی اے، بی، سی اور ڈی مکمل کرنے کے بعد اٹھائیس نومبر دو ہزار کو بطور سب انسپکٹر مستقل تعینات ہوئے۔ جب کہ دوسری طرف عطا محمد ؛ جو کہ دس نومبر انیس سو تریانوے کو بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پنجاب پولیس میں بھرتی ہوئے اور بالآخر کورسز کی تکمیل کے بعد نومبر انیس سو چھیانوے میں مستقل ہوئے۔ مستقلی کے بعد بالترتیب اپیلانٹ اور ریسپانڈنٹ کے نام پروموشن کے لیے لسٹ ایف اور ای میں شامل کئے گئے۔ لیکن یہاں پر ایک مسئلہ یہ ہوا کہ اس دوران سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ قیوم نواز کے نام سے آیا (1999 SCMR 1594 ) جس کے مطابق تاریخ تقرری اور تاریخ مستقلی میں کوئ فرق نہیں ہے اور دونوں ایک ہی ہیں جس پر عمل کرتے ہوئے دونوں فریقین کو ان کی تاریخ تقرری سے ہی مستقل سمجھا گیا اور پروموشن کے لئے سینیارٹی کا شمار بھی تاریخ مستقلی کی بجائے تاریخ تقرری سے ہونے لگا۔ یاد رہے کہ اس دوران ریسپانڈنٹ کی بطور سب انسپکٹر اور انسپکٹر پروموشن اور اپیلانٹ کی بطور انسپکٹر پروموشن قیوم نواز ججمنٹ کی روشنی میں ہوتی گئ لیکن اس دوران ایک مسئلہ آیا کہ دو ہزار انیس میں انسپکٹرز کی سینیارٹی لسٹ شائع کی گئی جس اپیلانٹ یعنی حماد نبی کا نمبر دو سو اکیاسی تھا لیکن یہ لسٹ چونکہ قیوم نواز کیس کی مناسبت میں نہیں تھی تو سروس ٹربیونل میں اس لسٹ کو چیلینج کیا گیا اور ٹربیونل نے قیوم نواز کیس کی روشنی میں نئ سینیارٹی لسٹ شائع کی جس میں اپیلانٹ کو تین سو تئیس نمبر پر رکھا گیا جب کہ ریسپانڈنٹ جو کہ پرانے لسٹ میں تھے بھی نہیں تو ان کا نام دو سو اکتالیس نمبر پر رکھا گیا جس کے بعد موجودہ اپیلانٹ نے ٹربیونل کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور یوں سپریم کورٹ میں اس کیس کا آغاز ہوا ۔
سپریم کورٹ کے سامنے سوال نہایت ہی سیدھا سادہ تھا کہ پولیس میں پروموشن کے لئے افسران کی سینیارٹی جانچنے کا طریقہ کار کیا ہے ؟
مندرجہ بالا سوال کے جواب کے لئے سپریم کورٹ میں نہ صرف فریقین کے وکلاء نے دلائل دئے بلکہ ساتھ ہی ساتھ نہایت ہی فاضل پولیس افسر ڈی آئ جی لیگل کامران عادل صاحب نے بھی عدالت کی رہنمائی کی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس فیصلے کا آغاز کیا ۔
فیصلے کا آغاز سپریم کورٹ نے پولیس رولز ، انیس سو چونتیس کے رول بارہ۔دو۔(تین) سے کیا ہے جس میں صراحت کے ساتھ تمام پولیس افسران کی سینیارٹی کی بات کی گئ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسپکٹرز کے لئے دو طرح کی سینیارٹی کا تعین کیا جاتا ہے ۔ پہلا یہ کہ پروبیشن کے دورانئے میں سینیارٹی کا شمار تاریخ تقرری سے ہوگا لیکن جب ایک دفعہ پروبیشن کا دورانیہ ختم ہو جائے اور آفیسر کی مستقلی کا آرڈر ہوجائے تو پھر اس کے بعد سینیارٹی کا تعین تاریخ مستقلی سے ہوگا اور یہی سینیارٹی حتمی تصور ہوگی۔ سینیارٹی کا مسئلہ حل کرنے کے بعد چونکہ اس مسئلے کی بنیاد قیوم نواز کیس ہے تو سپریم کورٹ نے قیوم نواز کیس کا جائز لیا ہے اور صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ قیوم نواز کیس کو فیصلہ کہنا ہی غلط ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک لیو ریفیوزنگ آرڈر تھا جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل ایک سو نواسی کی روشنی میں بائنڈنگ ہی نہیں ہے اور مزید لکھا ہے کہ لیو ریفیوزنگ آرڈر کو کسی صورت بائینڈنگ عدالتی نظیر کہنا غلط ہے اور قیوم نواز کیس میں نہ صرف مندرجہ بالا زکر شدہ پولیس رولز کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے مشتاق وڑائچ فیصلے ( PLD 1985 SC 159 ) کو بھی نظر کیا گیا ہے جس میں صراحت کے ساتھ تاریخ مستقلی اور تاریخ تقرری پر بحث کی گئی ہے۔
مندرجہ بالا امور کی وضاحت کے بعد سپریم کورٹ موجودہ کیس کی طرف واپس آئ ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ اس کیس میں بھی ٹربیونل نے قیوم نواز کیس پر انحصار کیا ہے اور چونکہ وہ عدالتی نظیر ہے ہی نہیں اور اس کے علاؤہ ٹریبونل نے نہ صرف پولیس رولز کو نظر انداز کیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے ایک اور فیصلے محمد یوسف کیس ( 1996 SCMR 1297 ) کو بھی نظر انداز کیا ہے تو اس لئے ٹربیونل کا فیصلہ کو خلاف قانون قرار دے دیا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے ایک اور اہم کام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ چونکہ قیوم نواز کیس کی وجہ پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہ چکا ہے لیکن اس کورٹ نے علی اظہر خان بلوچ کیس میں آؤٹ آف ٹرن پروموشن کا سد باب کیا جبکہ قبل از مستقلی اور ترقی کا راستہ رضا صفدر کاظمی کیس میں روکا گیا جبکہ پروبیشن کے بعد مستقلی میں تاخیر کا سد باب گل حسن جتوئی کیس میں کیا گیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے آرگنائزیشنل جسٹس کے حوالے سے جو بحث باندھی ہے تو وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور قانون کے ہر طالب علم کو بالخصوص اور پولیس افسران کو بالعموم یہ بحث بار بار پڑھنی چاہیے۔ فیصلے کے آخر میں چونکہ فریقین اس بات پر راضی تھے کہ سینیارٹی کا تعین پولیس رولز کے رول بارہ۔دو(تین) کے تحت ہونا چاہیے تو انسپکٹر جنرل پولیس کو ایک کمیٹی قائم کرکے تمام افسران کے رولز کے مطابق سینیارٹی کا تعین کرکے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا ہے ۔
سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ پولیس افسران کی پروموشن کے لیے سینیارٹی کا تعین پولیس رولز کے رول بارہ۔دو(تین) کے تحت ہوگا جس کے مطابق سینیارٹی کا شمار تاریخ مستقلی سے ہوگا اور اس کے علاؤہ لیو ریفیوزنگ آرڈر کو فیصلہ نہیں کہا جاسکتا اور یوں وہ بائنڈنگ عدالتی نظیر نہیں ہوسکتی اور اس کے علاؤہ آرگنائزیشنل جسٹس پر ایک خوبصورت بحث اس اہم فیصلے کا حصہ ہے۔
This Important Judgement Is Written By Justice Syed Mansoor Ali Shah And Can Be Searched And Cited As 2023 SCMR 584.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form