Landmark Judgment of Lahore Court on Disolution of marriage, divorce and khula

Landmark Judgment of Lahore Court on Disolution of marriage, divorce and khula

 PLD 2021 LAHORE 757.        


 لاہور کی خلع، طلاق اور تنسیخ نکاح پہ ایک خوبصورت ججمنٹ۔۔ 

حقائق کچھ یوں ہیں کہ خاتون نے فیملی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ شوہر کا تعلق میرے ساتھ ٹھیک نہیں ہے اور وہ مار پیٹ کرتا ہے وغیرہ وغیرہ لہذا مجھے میرا حق مہر جو کہ تین ملین سے زیادہ ہے اور دیگر جہیز کا سامان یہ سارا واپس کیا جاۓ اور عدالت مجھے خاوند سے طلاق دلواۓ بالفاظِ دیگر عدالت نکاح کی تنسیخ کرے۔ 

فیملی کورٹ نے فیصلہ کرتے ہوۓ تنسیخ نکاح کے بجائے خلع کا حکم پاس کیا اور خاتون کو حکم دیا کہ حق مہر سے دستبردار ہوجائیں۔ مذکورہ خاتون اپیل میں گئی اور اپیل میں بھی یہی فیصلہ برقرار رکھا گیا جس کے بعد خاتون کو مجبوراً ہائی کورٹ میں رٹ جوریسڈکشن میں جانا پڑا۔ 

معزز عدالت نے طے کیا کہ خلع بیوی کا شرعی حق ہے یہ عدالت کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو بھی بن مانگے اس کا حق دلوانا شروع کردے اگر خاتون خلع نہیں مانگ رہی بلکہ تنسیخ نکاح کی بنیاد پہ طلاق مانگ رہی ہے تو عدالت تنسیخ نکاح کے بجائے خلع دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس صورت میں عدالت کو شہادت میں جانا ہوگا اور پراپر ٹرائل کے زریعے یہ طے کرنا ہوگا کہ آخر کن وجوہات کی بناء پر خاتون کو طلاق دی جاسکتی ہے یا نکاح کی تنسیخ کی جاسکتی ہے۔۔۔

سب سے اہم نکتہ جو معزز جج نے طے کیا وہ یہ کہ معزز جج نے صراحتا لکھا کہ خلع کی صورت میں بھی اگر خاتون خلع کے لیے راضی ہو مگر شوہر کی طرف سے اجازت نہ دی جاۓ تو یہ خلع شرعاً و قانونا جائز نہیں ہوگا کیونکہ شریعت کہتی ہے کہ خلع میں شوہر کی اجازت ضروری ہے۔ 

اگر خاتون خلع مانگ لے اور شوہر انکار کر دے تو شریعت و قانون میں خلع مؤثر تصور نہ ہوگا اس لیے خاوند کی اجازت یا قبول ضروری ہے (اس کے لیے دیکھیے مذکورہ ججمنٹ کا پیرا نمبر 14)

معزز جج نے مزید یہ کہا کہ خاتون جن وجوہات کی بناء پہ خاوند سے اپنا نکاح منسوخ کرانا چاہتی ہے اگر وہ وجوہات ثابت نہ ہو جاۓ تو اس صورت میں بھی عدالت خود سے خلع کا حکم نہیں دے سکتی بلکہ عدالت کو دیگر وجوہات کی طرف جانا ہوگا اور عدالت کو دیگر وجوہات کی بناء پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ نکاح کی تنسیخ کی جاۓ  لیکن خلع کی بنیاد پہ نہیں۔ (اس کے لیے دیکھیے پیرس نمبر 12)

مزید اسی پیرا سے آگے پیرا نمبر 15 میں طے پایا کہ خلع کی صورت میں عدالت یک طرفہ فیصلہ نہیں دے سکتی یعنی خاوند کی غیر موجودگی میں خلع کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ 

اگر شوہر ان شرائط پہ خلع دینے پہ راضی نہ ہو جن پہ بیوی خلع لینا چاہ رہی ہو  تو عدالت تب تک خلع کا حکم جاری نہیں کرسکتی جب تک دونوں کچھ شرائط پہ متفق ہوکر خلع کا فیصلہ نہ کردے۔

مزید یہ کہا گیا کہ اگر خاوند کی بیوی کے ساتھ نا بنتی ہو اور خاوند طلاق بھی نہ دینا چاہ رہا ہو بلکہ بیوی کو اس طرز پہ ٹریٹ کر رہا ہو کہ بیوی مجبور ہر کر خلع مانگ لے اور خاوند کو حق مہر بچ جاۓ تو اس صورت میں عدالتوں کو بہت محتاط ہونا چاہیے اور معاملہ کی تہ تک پہنچانا چاہیے کہ آخر غلطی کس کی ہے یا ظلم کون کر رہا ہے۔ 

مذکورہ ججمنٹ میں قرآن پاک سے اور ہدایہ سے بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Contact Form